1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

ہیٹی: جیل سے ہزاروں قیدیوں کے فرار ہونے کے بعد ایمرجنسی نافذ

4 مارچ 2024

جیل توڑ کر چار ہزار قیدیوں کے فرار ہونے کے بعد دارالحکومت میں رات کے کرفیو کے ساتھ ہی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مسلح گروہوں نے وزیر اعظم کو ہٹانے کی کوشش کے تحت اپنی پرتشدد کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4d81h
ہیٹی میں تشدد
گینگ لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم ایریل ہنری کو طاقت کے ذریعے استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، جو فی الوقت ملک میں موجود نہیں ہیںتصویر: Odelyn Joseph/AP/picture alliance

ہیٹی کی حکومت نے ملک کی دو اہم جیلوں کو توڑ کر ہزاروں قیدیوں کے فرار ہونے کے پس منظر میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے سبب دارالحکومت اور اس کے آس پاس 72 گھنٹوں کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کرتے ہوئے رات کے دوران کرفیو کا اعلان کیا ہے۔

ہیٹی: مسلح گینگ نے دو صحافیوں کو قتل کر دیا

ہفتے کے اواخر میں مسلح گروہوں نے پورٹ او پرنس کی ایک بڑی جیل پر دھاوا بول دیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً چار ہزار قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

ہیٹی میں سترہ امریکی مسیحی مشنری اغوا، الزام جرائم پیشہ گروہ پر

گینگ لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم ایریل ہنری کو طاقت کے ذریعے استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، جو فی الوقت ملک میں موجود نہیں ہیں۔

ہیٹی:مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران صحافیوں پر فائرنگ

 حکام نے تشدد کے بڑھتے خطرات کے پیش نظر آئندہ چند روز کے لیے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ رات کے دوران کرفیو بھی نافذ رہے گا۔

دارالحکومت میں افراتفری

اتوار کے روز ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ-او-پرنس میں اس وقت افراتفری پھیل گئی، جب ملک کے مرکزی قید خانے پر حملے کے دوران رابطوں میں خلل پڑا اور بیشتر قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

ہیٹی: پولیس اور فوج کے درمیان فائرنگ، ایک فوجی ہلاک

جیل پر دھاوا بولنے والے گینگ کے لیڈر جمی شریزیئر ہیں، جو ماضی میں ایک پولیس افسر تھے۔ انہوں نے ہی ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے والے حالیہ تشدد کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد وزیر اعظم ایریل ہنری کو ہٹانا ہے۔

ہیٹی کے متاثرینِ ہیضہ کا اقوام متحدہ کے خلاف مقدمہ

البتہ جیل پر جب دھاوا بولا گیا توا اس دوران ہنری کینیا کا دورہ کر رہے تھے، تاکہ گینگ تشدد کا سامنا کرنے کے لیے سکیورٹی تعاون حاصل کیا جا سکے۔ وہ ملک واپس آنے والے تھے، تاہم وزیر اعظم کا ٹھکانہ ابھی تک معلوم نہیں ہے۔

پورٹ او پرنس کے تقریباً 80 فیصد حصے پر اسی مسلح گروہ کو کنٹرول حاصل ہے، جو وزیر اعظم کو بے دخل کرنا چاہتا ہے۔

ہیٹی کی پولیس یونین نے فوج سے درخواست کی تھی کہ وہ دارالحکومت کی مرکزی جیل کو مزید مضبوط بنانے میں مدد کرے، تاہم اس اقدام سے قبل ہی ہفتے کو دیر گئے اس پر دھاوا بول دیا گیا۔

ہیٹی کی مرکزی جیل
اتوار کے روز بھی جیل کے دروازے کھلے تھے، جہاں کوئی سکیورٹی اہلکار نظر نہیں آ رہا تھا، جبکہ قیدیوں کے بہت سے اہل خانہ اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بھی وہاں پہنچ گئےتصویر: Odelyn Joseph/AP/picture alliance

جیل پر حملے سے متعلق ہم کیا جانتے ہیں؟

ملک میں جاری تشدد کے سلسلے میں اواخر ہفتہ سب سے بڑی جیل پر حملہ ہوا، جس میں کم از کم وہ تین قیدی بھی ہلاک ہو گئے، جو بظاہر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

اتوار کے روز بھی جیل کے دروازے کھلے تھے، جہاں کوئی سکیورٹی اہلکار نظر نہیں آ رہا تھا، جبکہ قیدیوں کے بہت سے اہل خانہ اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بھی وہاں پہنچ گئے۔

انسان حقوق کے گروپ آر این ڈی ڈی ایچ کے مطابق یہ جیل 700 قیدیوں کو رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی، جس میں گزشتہ سال فروری تک تقریباً 3,687 قیدی بند تھے۔ اطلاعات کے مطابق حملے کے بعد اب 100 سے بھی کم لوگ جیل میں باقی بچے ہیں۔

اتوار کے روز وزارت مواصلات نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ جیل پر حملہ ''ان لوگوں کو رہا کرنے کی کوشش ہے، جو قتل، اغوا اور دیگر سنگین جرائم کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے سبب قید تھے۔''

وزارت نے بہت سے قیدیوں کے فرار کو روکنے میں پولیس فورسز کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں بہت سے قیدیوں کے ساتھ ہی جیل کا عملہ بھی زخمی ہوا۔

پورٹ-او-پرنس کی جیل میں قیدگینگ کے وہ ارکان بھی شامل تھے جن پر سن 2021 میں صدر جوؤنیل موئس کے قتل کے سلسلے میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔

ہیٹی میں گینگ تشدد میں اضافہ

مسلح گروہوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں پُرتشدد مظاہروں کے دوران ایک جھڑپ کی وجہ سے شروع ہوئی تھیں، لیکن جب وزیر اعظم ہینری نے کینیا کا دورہ شروع کیا تو اس میں اضافہ ہوگیا۔

موئس کے قتل کے بعد اقتدار میں آنے والے ہنری نے پہلے کہا تھا کہ وہ فروری کے اوائل تک اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ تاہم بعد میں انہوں نے کہا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے، سب سے پہلے سکیورٹی کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہیٹی کی نیشنل پولیس کے پاس ملک کے 11 ملین سے زیادہ باشندوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تقریباً صرف 9,000 ہی افسران ہیں۔

کئی مہینوں کی ناکام کوششوں کے بعد کینیا کی پولیسنگ مشن آپریشن کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہوا تھا۔ تاہم ہیٹی میں اقوام متحدہ اور مغربی قیادت کی تعیناتیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

 ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)