1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یہاں آکر آج بھی ملک کے عظیم ادیبوں کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں‘

8 مارچ 2013

علم و ادب اور تاریخی اہمیت کا حامل پاک ٹی ہاؤس تیرہ سال بعد جمعے کے روز دوبارہ کھول دیا گیا۔ انارکلی بازار کے مضافات میں واقع یہ چائے خانہ تقسیم ہند سے قبل 1940ء میں انڈیا ٹی ہاؤس کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/17tzj
تصویر: Tanvir Shahzad

سن 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد اس کا نام تبدیل کرتے ہوئے پاک ٹی ہاؤس رکھ دیا گیا۔ تیرہ سال پہلے اس ٹی ہاؤس کے مالک نے کاروبار کے منافع بخش نہ ہونے کی وجہ سے چائے خانہ بند کرتے ہوئے اسی عمارت میں ٹائروں کی دکان بنا لی تھی، جس کے بعد علمی اور ادبی حلقوں کی طرف سے پاک ٹی ہاؤس کے دوبارہ بحالی کا مطالبہ تواتر سے سامنے آتا رہا ہے۔

جمعے کے روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں پاک ٹی ہاؤس کا افتتاح کیا۔ لاہور کی ضلعی حکومت نے پنجاب حکومت کی معاونت سے تقریباﹰ پچاس لاکھ روپے کی لاگت سے اس کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا ہے۔ اس دو منزلہ چائے خانے میں 80 کے قریب لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے۔ پاک ٹی ہاؤس کا ایک گوشہ ادبی شخصیات کے اجلاسوں کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے جبکہ اس عمارت کے اندرونی حصے میں پاکستان کے نامور ادیبوں، شاعروں، اور دانشوروں کی تصاویر بھی لگائی گئی ہیں۔

Pak Tea House Lahore
تصویر: Tanvir Shahzad

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے بتایا کہ لاہور میں ادیبوں اور شاعروں کے بیٹھنے کے لیے عرب ہوٹل، نگینہ بیکری، لارڈز ریسٹورنٹ سمیت بہت سے مقامات ہوا کرتے تھے لیکن آ ہستہ آہستہ یہ سب بند ہو گئے اور ایک پاک ٹی ہاؤس ہی ادبی شخصیات کے ملنے جلنے کی واحد جگہ باقی رہ گئی تھی لیکن یہ بھی تیرہ برس پہلے بند ہو گیا تھا۔

ان کے بقول اس کا دوبارہ کھلنا بہت خوش آئند ہے۔ یاد رہے معروف ادبی تنظیم حلقہ ارباب ذوق کا ہفتہ وار اجلاس بھی مدتوں اسی جگہ ہوتا رہا ہے۔

معروف شاعر امجد اسلام امجد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاک ٹی ہاؤس پاکستان کا تاریخی، تہذیبی اور علمی ورثہ ہے۔ پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستان کے تمام بڑے ادیب اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے معروف لوگ یہاں آیا کرتے تھے۔ ان کے بقول خود انہوں نے بھی اسی پاک ٹی ہاؤس میں اپنے سینیئرز کے ساتھ بیٹھ کراپنی تحریری اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔

پاکستان کے ممتاز ادیب احمد عقیل روبی بھی پاک ٹی ہاؤس کے ابتدائی دنوں کے عینی شاہد ہیں، انھوں نے بتایا کہ پاک ٹی ہاؤس ایک ایسا سایہ دار درخت ہے، جس کی چھاؤں میں انہوں نے بڑے بڑے ادیبوں کی رفاقت میں پڑھنا لکھنا سیکھا۔ ان کے بقول :’’مجھے یہاں آکر آج بھی ملک کے عظیم ادیبوں کی سرگوشیاں سی سنائی دیتی ہیں۔ یہ وہ کھڑکی ہے، جہاں کھڑے ہو کر ناصر کاظمی اپنے دوست ادیبوں کا انتظار کرتے تھے، یہ وہ کرسیاں ہیں، جہاں کبھی راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، فیض احمد فیض، سید عابد علی، ڈاکٹر سید عبداللہ، وقار عظیم، ابن انشا، احمد فراز اور منیر نیازی بیٹھا کرتے تھے، یہاں نظریاتی بحث و مباحثہ بھی ہوتا تھا اور علمی اور ادبی کاموں پر تنقید بھی ہوتی تھی۔

Pak Tea House Lahore
تصویر: Tanvir Shahzad

ان کے بقول پاک ٹی ہاؤس کے دوبارہ کھلنے سے نوجوان نسل کو اپنے ادب سے دلچسپی پیدا ہوگی اور نئے ادبی رجحانات کو فروغ ملے گا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں نامور ادبی شخصیات کی نشانیوں کو محفوظ کرنے کی روایت موجود ہے، شیکسپیئر کا گاؤں محفوط کیا گیا ہے، کئی ادبی شخصیات کے سٹڈی رومز بھی محفوظ کیے گئے ہیں، پاکستان میں بھی ایسی یادگار جگہوں کو محفوظ کیا جانا اچھا اقدام ہے۔

معروف شاعر خالد شریف نے بتایا کہ پاک ٹی ہاؤس اردو ادب میں ایک روشن استعارے کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا دوبارہ کھلنا لاہور کی ادبی اور ثقافتی زندگی میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔اس سے ادبی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور انتہا پسندانہ رجحانات میں کمی آئے گی۔

پاک ٹی ہاؤس میں ریسٹورنٹ چلانے کے لیے کیٹرنگ کے کاروبار سے وابستہ لاہور کی ایک معروف نجی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ اس کمپنی کے ایک اہلکار نصیر احمد نے بتایا کہ پاک ٹی ہاؤس میں چائے، کہوا، کولڈ ڈرنکس اور سینڈویچز وغیرہ مناسب نرخوں پر دستیاب ہیں اور یہاں عام لوگ بھی آسکتے ہیں۔ ان کے بقول لوگوں کا ریسپانس بہت اچھا ہے۔

پاک ٹی ھاوس میں موجود پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالب علم علی عمران نے بتایا کہ پاک ٹی ہاؤس کھلنے سے نوجوان شاعروں کو ایک ایسی جگہ میسر آ گئی ہے، جہاں وہ معروف ادبی شخصیات سے مل کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

ایک وکیل راجہ عبدالجبار نے بتایا کہ وہ اس تاریخی عمارت کو دیکھنے کے لیے خاص طور پر یہاں آئے ہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: امتیاز احمد