1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

علاقائی کانفرنس، چین کی طرف سے افغانستان کی بھرپور حمایت

31 مارچ 2022

چینی صدر شی جن پنگ نے ایک ایسے وقت میں افغانستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے، جب مغربی ممالک نے امدادی رقوم بھی روک دی ہیں۔ چینی صدر کا یہ بیان طالبان حکومت کے لیے کس قدر اہم ثابت ہو سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/49Hek
China Afghanistan Außenministergespräche
تصویر: Zhou Mu/Xinhua/AP/picture alliance

چینی صدر شی جن پنگ نے افغانستان کی حمایت میں یہ بیان ایک علاقائی کانفرنس میں دیا ہے۔ اس کانفرنس میں افغانستان، چین، روس، پاکستان، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے اعلیٰ حکومتی نمائندے شریک ہیں۔ ماہرین کے مطابق چینی صدر کے اس بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مغربی ممالک کے افغانستان سے انخلاء کے بعد بیجنگ حکومت اپنے اس ہمسایہ ملک میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

چینی صدر کا مزید کہنا تھا، '' افغان باشندے ایک پرامن، مستحکم، ترقی یافتہ اور خوشحال افغانستان کی خواہش رکھتے ہیں اور ایسا ہی افغانستان علاقائی ممالک اور عالمی برادری کے مشترکہ مفادات کو پورا کرتا ہے۔‘‘ تُن شی شہر میں ہونے والی اس میٹنگ میں شریک ممالک کو مخاطب کرتے انہوں نے مزید کہا، ''چین نے ہمیشہ افغانستان کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کیا ہے۔ چین افغانستان کی پرامن ترقی اور استحکام کے لیے پرعزم ہے۔‘‘

چینی صدر نے اس حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں کہ بیجنگ حکومت کیسے کابل حکومت کی مدد کرے گی۔ تاہم چین پہلے ہی افغانستان کو ایمرجنسی امداد فراہم کر چکا ہے اور اس ملک میں تانبے کی کان کنی کے لیے کوشاں ہے۔

بیجنگ حکومت کے مطابق چین دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں ''عدم مداخلت‘‘ کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے اور تب تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد بھی فراہم نہیں کی جاتی، جب تک اقوام متحدہ کی طرف سے اپیل نہ کی جائے۔ لیکن اس چینی حکومتی موقف کے برعکس اس پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملکی و اندرونی مفادات کی خاطر مداخلت کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ 

چین میں ہونے والے اس خصوصی اجلاس میں چین، امریکہ اور روس کے خصوصی مندوب برائے افغانستان بھی شریک تھے۔ چین نے ابھی تک طالبان حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا لیکن اس کے باوجود اس کے موجودہ کابل حکومت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ چین کی طرف سے افغانستان میں انسانی حقوق اور لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش کے حوالے سے بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

تاہم  طالبان متعدد مرتبہ چین کو یہ یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ چین کو اندیشہ ہے کہ ایغور اقلیتی علیحدگی پسند افغانستان میں رہتے ہوئے سنکیانگ کے علاقے میں مداخلت کر سکتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے چینی وزیر خارجہ نے بھی کابل کا ایک اچانک دورہ کیا تھا۔ چین میں ہونے والے اس اجلاس میں قطر اور انڈونیشیا کے وزرائےخارجہ کو بطور مہمان دعوت گئی تھی۔ اس میں طالبان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی افغانستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

ا ا / ع ح ( اے پی، روئٹرز)