1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

سعودی عرب کی پہلی بار ’مس یونیورس‘ مقابلے میں ممکنہ شرکت

26 اپریل 2024

سعودی عرب میں رواں سال پہلی بار ’مس یونیورس‘ مقابلے میں ممکنہ طور پر حصہ لے سکتا ہے۔ قبل ازیں ایک سعودی فیشن ماڈل نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اس عالمی مقابلے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4fE8z
Saudi-Arabien Riad 2024 | Model Rumy Al-Qahtani im Interview zuhause
تصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images

مس یونیورس آرگنائزیشن کی رابطہ کار برائے بین الاقوامی تعلقات ماریا خوسے اوندا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو دیے گئے ایک بیان میں کہا، ''مس یونیورس آرگنائزیشن نے اس وقت سعودی عرب فرنچائز کے لیے ممکنہ امیدوار منتخب کرنے کے لیے جانچ پڑتال کا سخت عمل شروع کر رکھا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا، ''ہم بہت جلد سعودی عرب کے قومی ڈائریکٹر کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ اس کے بعد سعودی عرب کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ ستمبر میں میکسیکو میں ہونے والے مقابلے کے اگلے ایڈیشن سے پہلے ایک امیدوار نامزد کر سکے۔‘‘

سعودی ماڈل کا اپنے انتخاب کا دعویٰ

اس سے قبل سعودی ماڈل رومی القحطانی نے مارچ کے اواخر میں اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ وہ مس یونیورس مقابلے میں سعودی عرب کی نمائندگی کرنے پر فخر محسوس کر رہی ہیں۔

اس پوسٹ میں ستائیس سالہ القحطانی نے سعودی پرچم اٹھائے اپنی کچھ تصاویر بھی شیئر کی تھیں۔

پوسٹ میں ستائیس سالہ القحطانی نے سعودی پرچم اٹھائے اپنی کچھ تصاویر بھی شیئر کی تھیں
پوسٹ میں ستائیس سالہ القحطانی نے سعودی پرچم اٹھائے اپنی کچھ تصاویر بھی شیئر کی تھیںتصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images

ان کی پوسٹ وائرل ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد مس یونیورس آرگنائزیشن نے ایک بیان جاری کیا جس میں رومی القحطانی کی پوسٹ کو 'غلط اور گمراہ کن' قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس خلیجی ریاست میں انتخاب کا کوئی عمل نہیں کیا گیا۔

تاہم اب ادارے کی رابطہ کار ماریا خوسے کا کہنا ہے کہ نیشنل ڈائریکٹر منتخب کیے جانے کے بعد سعودی عرب کو قومی سطح پر مس یونیورس مقابلہ منعقد کرانا ہو گا جس میں القحطانی بھی حصہ لے سکیں گی جہاں انہیں دیگر امیدواروں سے مقابلہ کرنا ہو گا۔

مس یونیورس کی رابطہ کار کے مطابق اس کے بعد سعودی عرب عالمی مقابلے میں حصہ لینے کے لیے اپنا ایک امیدوار نامزد کر سکتا ہے۔

سعودی پرچم اٹھانے کے باعث تنقید

انسٹاگرام پوسٹ وائرل ہونے کے بعد دیے گئے اپنے اولیں انٹرویو میں رومی القحطانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ مس یونیورس مقابلے میں شرکت کے حوالے سے 'بات چیت' کر رہی ہیں، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔

رومی القحطانی نے بتایا کہ وہ اس سے قبل مشرق وسطیٰ اور یورپ میں ہونے والے مختلف مقابلوں میں حصہ لے چکی ہیں۔

رومی کو انسٹاگرام پوسٹ کے بعد اپنے لباس اور سعودی پرچم کے ساتھ لی گئی تصاویر کے باعث قدامت پسند سعودی شہریوں کی طرف سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں تصاویر شیئر کرنے پر افسوس نہیں ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''کئی کھلاڑی اور شائقین جھنڈے کے ساتھ اسی طرح تصویر بناتے ہیں جیسے میں نے کیا تھا۔ حسن کے مقابلوں میں بھی ہر لڑکی اپنے ملک کا پرچم اٹھاتی ہے، تو اس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں تھا۔‘‘

سعودی تشخص بہتر بنانے کی کوشش

مس یونیورس مقابلے میں اگر سعودی امیدوار کی شرکت ہوتی ہے تو یہ سعودی عرب کی جانب سے اپنے انتہائی قدامت پسند تشخص میں تبدیلی کی کوششوں میں ایک اور قدم ہو گا۔  سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ایسی کاوشوں کے ذریعے سیاحوں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دنیا میں خام تیل برآمد کرنے والے سب سے بڑا ملک سعودی عرب میں طویل عرصے سے خواتین کو پابندیوں کا سامنا رہا ہے، جس کی وجہ سے اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔

اگرچہ سعودی ولی عہد نے خواتین پر عائد کئی پابندیوں کو ختم کیا ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سن 2022 میں نافذ ہونے والا 'پرسنل اسٹیٹس‘ قانون اب بھی شادی، طلاق اور بچوں کی پرورش سے متعلق معاملات میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا سبب بن رہا ہے۔

ش ح/م ا (اے ایف پی)

مس یونیورس پاکستان، ایریکا روبن سے ملاقات