1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'دہشت گردی فرانس اور اسرائیل کا مشترکہ دشمن،‘ ماکروں

24 اکتوبر 2023

فرانسیسی صدر ماکروں نے تل ابیب میں اپنی ملاقاتوں میں اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے دہشت گرد تنظیم حماس کی طرف سے یرغمال بنائے گئے یا ہلاک کردہ فرانسیسی شہریوں کے رشتہ داروں سے بھی ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/4XxHQ
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: CHRISTOPHE ENA/AFP

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے یروشلم میں ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ماکروں نے کہا کہ فرانس اور اسرائیل دہشت گردی کو اپنا ''مشترکہ دشمن‘‘ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''آپ تنہا نہیں ہیں۔‘‘

فرانسیسی صدر نے دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف جنگ کرنے والے بین الاقوامی اتحاد کو اپنی جنگ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے حماس کے خلاف بھی جنگ کرنے کی اپیل کی۔

وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس موقع پر اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ پٹی میں جاری جنگ کے دوران حماس کو تباہ کر دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تصادم کے بعد کوئی بھی ''حماس کے جبر‘‘ میں نہیں رہے گا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ جنگ طویل ہو سکتی ہے۔

فرانسیسی صدر نے قبل ازیں اسرائیلی ہم منصب آئزک ہیرزوگ سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں فرانس اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ صدر ماکروں نے تاہم علاقائی تصادم کے خطرے کے خلاف خبردار بھی کیا۔

فرانسیسی صدر نے اسرائیلی ہم منصب آئزک ہیرزوگ سے کہا کہ مسلم عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں فرانس اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑے گا
فرانسیسی صدر نے اسرائیلی ہم منصب آئزک ہیرزوگ سے کہا کہ مسلم عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں فرانس اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑے گاتصویر: Christophe Ena/Pool/Reuters

’یرغمالوں کی رہائی پہلا مقصد‘

ایمانوئل ماکروں نے سات اکتوبر کو دہشت گرد تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل کی سرزمین پر کیے جانے والے خونریز حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ''جو کچھ ہوا، اسے کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔‘‘

انہوں نے کہا، ''میں یہاں یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘ ایمانوئل ماکروں کا کہنا تھا، ''کسی بھی تفریق کے بغیر، تمام یرغمالوں کی رہائی اب پہلا مقصد ہونا چاہیے۔‘‘

حماس کے زیر قبضہ یرغمالیوں کی رہائی ’بہت جلد،‘ قطری اہلکار

قبل ازیں اسرائیل آمد پر ایمانوئل ماکروں نے بین گوریان ہوائی اڈے پر ان اسرائیلی فرانسیسی شہریوں سے ملاقات کی، جنہوں نے سات اکتوبر کے دہشت گردانہ حملے میں اپنے عزیزوں کو کھودیا یا جن کے رشتہ داروں کو حماس کے دہشت گردوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔

حماس نے حملہ کر کے عرب اسرائیلی ایجنڈا ہی بدل دیا؟

خیال رہے کہ امریکہ، جرمنی اور یورپی یونین نے عسکریت پسند تنظیم حماس  کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔

اسرائیلی حکام کے مطابق غزہ پٹی سے اسرائیل پر حماس کے جنگجوؤں کے حملے میں کم از کم 1400 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 30 فرانسیسی شہری بھی شامل تھے۔

دوسری طرف فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی پر کیے جانے والے مسلسل فضائی حملوں میں اب تک 5000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بہت بڑی تعداد خواتین، بچوں اور دیگر عام شہریوں کی تھی۔

حماس کیا ہے؟

’حقیقی امن عمل‘ دوبارہ شروع کرنے کی تجویز

صدر ایمانوئل ماکروں سے قبل کئی دیگر مغربی رہنما بھی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوسے ملاقات کے لیے اسرائیل جا چکے ہیں۔ ان میں امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم رشی سونک، وفاقی جرمن چانسلر اولاف شولس اور اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی بھی شامل ہیں۔

صدر ماکروں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے لیے مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں بھی جائیں گے۔

پیرس میں فرانسیسی دفتر صدارت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسے وقت پر جب اسرائیل غزہ پٹی کے انتہائی گنجان آباد فلسطینی علاقے میں زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے، اس بات کی توقع ہے کہ ماکروں غزہ میں ''شہری آبادی کے تحفظ‘‘ کا مطالبہ بھی کریں گے۔

امریکہ نے اسرائیل کو زمینی کارروائی میں انتظار کرنے کا مشورہ دیا ہے

پیرس میں صدارتی دفتر نے کہا کہ ماکروں بالخصوص غزہ میں اشد ضروری امدادی اشیاء کی ترسیل کے لیے ''انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘‘ کا مطالبہ کریں گے۔

اسرائیل کی طرف سے مکمل محاصرے کے بعد سے غزہ پٹی کے تقریباً 2.4 ملین فلسطینی باشندے پانی، اشیائے خوراک، بجلی، ایندھن  اور دیگر بنیادی اشیائے ضرورت کی ترسیل سے محروم ہیں۔

ج ا / ص ز، م م (اے ایف پی، روئٹرز)