1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

احمد ندیم قاسمی، ناقابل فراموش یادیں

امجد علی10 جولائی 2014

نامور پاکستانی شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی ٹھیک آٹھ سال قبل دَس جولائی 2006ء کو انتقال کر گئے تھے۔ اُن کی برسی پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ca49
تصویر: privat

پاکستان کی ہمہ جہت ادبی شخصیات میں شمار ہونے والے احمد ندیم قاسمی ایک بے مثل شاعر بھی تھے جبکہ اُن کے قلم سے نکلے ہوئے افسانوں نے اردو فکشن پر بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اُن کا انتقال دَس جولائی 2006ء کو تقریباً نوّے برس کی عمر میں ہوا تھا۔

اپنے انتقال سے چند سال پہلے اُنہوں نے ڈوئچے ویلے کی اردو سروس کے ساتھ اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں اپنے ادبی سفر کے آغاز سے لے کر پاکستان کے اُس ادبی منظر نامے کی مختلف جہات تک کے بارے میں مفصل معلومات فراہم کی تھیں، جس پر وہ اپنے فکر و فن کے ساتھ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک چھائے رہے۔

وہ بیس نومبر 1616ء کو پاکستانی شہر سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم اور شعر و شاعری کے ساتھ اپنے ابتدائی تعلق کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا تھا کہ پرائمری کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو آج کل اٹک کہلاتا ہے اور وہیں اُنہوں نے میٹرک تک پڑھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ گاؤں کی فضا سے ایک چھوٹے سے شہر میں منتقلی ہی سے اُنہیں یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ ’دنیا تو بہت پھیلی ہوئی ہے اور اِس کے آفاق تو حدِ نظر سے بھی کہیں آگے ہیں‘۔

احمد ندیم قاسمی نے اپنے انٹرویو میں کہا:’’مَیں تو وہاں سے گزرتے ہوئے حیران ہوتا تھا کہ یہ کتنے خوبصورت جنگل ہیں، کتنے خوبصورت کھیت ہیں، کتنے خوبصورت دیہات ہیں۔ میں چونکہ دیہاتی ہوں اس لیے دیہات کی طرف میری خصوصی توجہ ہوتی تھی۔ اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے دیہات مَیں نے یا جرمنی میں دیکھے یا پھر انگلستان میں۔‘‘
احمد ندیم قاسمی نے اپنے انٹرویو میں کہا:’’مَیں تو وہاں سے گزرتے ہوئے حیران ہوتا تھا کہ یہ کتنے خوبصورت جنگل ہیں، کتنے خوبصورت کھیت ہیں، کتنے خوبصورت دیہات ہیں۔ میں چونکہ دیہاتی ہوں اس لیے دیہات کی طرف میری خصوصی توجہ ہوتی تھی۔ اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے دیہات مَیں نے یا جرمنی میں دیکھے یا پھر انگلستان میں۔‘‘تصویر: Erich Spiegelhalte/STG

اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے چچا کے ہاں مقیم تھے، جو اُن کے سرپرست بھی تھے، جب اُن کا تبادلہ شیخوپورہ ہو گیا تو وہ بھی اُن کے ہمراہ شیخوپورہ چلے گئے۔ اُنہوں نے شیخوپورہ ہائی اسکول میں میٹرک میں داخلہ لیا، جہاں معروف اردو شاعر ن م راشد کے والد فضل الٰہی چشتی ہیڈ ماسٹر تھے۔

اُسی دور میں جنوری 1931ء میں تحریک آزادی کے نامور رہنما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے، جہاں وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ مولانا جوہر نے کہا تھا کہ وہ ایک غلام ملک یعنی ہندوستان میں واپس نہیں جائیں گے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے انٹرویو میں احمد ندیم قاسمی نے بتایا کہ آزادی کے ہیرو مولانا جوہر کی خواہش پوری ہوئی اور اُنہیں فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔ اس طرح سے قاسمی صاحب کے شعری سفر کا آغاز ہوا۔

نامور پاکستانی شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی
نامور پاکستانی شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمیتصویر: privat

اُسی دور میں اُنہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے تھے۔ اُن کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ اُس دور کے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اُس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ قائم کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔ قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد اُن کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔ منٹو ہی کی دعوت پر وہ نئی دہلی گئے، جہاں ممبئی سے منٹو صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ وہاں دونوں نے اکٹھے نو دَس روز گزارے اور یوں اردو زبان کے ان دو نامور افسانہ نگاروں کے درمیان دوستی کا ایک ایسا تعلق اُستوار ہوا، جو منٹو کے انتقال تک قائم رہا۔

قاسمی صاحب نے امریکا اور چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کیے اور اسی دوران جرمنی بھی آئے۔ اُنہوں نے بتایا کہ جرمنی کے خوبصورت مناظر اُنہیں کسی اور ہی دنیا کا حصہ معلوم ہوتے تھے:’’مَیں تو وہاں سے گزرتے ہوئے حیران ہوتا تھا کہ یہ کتنے خوبصورت جنگل ہیں، کتنے خوبصورت کھیت ہیں، کتنے خوبصورت دیہات ہیں۔ میں چونکہ دیہاتی ہوں اس لیے دیہات کی طرف میری خصوصی توجہ ہوتی تھی۔ اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے دیہات مَیں نے یا جرمنی میں دیکھے یا پھر انگلستان میں۔‘‘

پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابوں کے خالق احمد ندیم قاسمی کی یاد میں ملک بھر میں خصوصی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ اُن کی شخصیت اور فن نے اردو زبان و ادب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں، جو ایک مدت اُن کی یاد دلاتے رہیں گے۔ خود اُنہوں نے اپنے ایک شعر میں کہا تھا:

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

مَیں تو دریا ہوں، سمندر میں اتر جاؤں گا