1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آپ کا کردار آپ کے کھانے کی پلیٹ میں!

12 اکتوبر 2021

پاکستان میں بہت سے شہری روزانہ بھوکے سوتے ہیں لیکن اسی ملک میں روزانہ لاکھوں ٹن خوراک ضائع بھی کر دی جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے کھانے کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/41YvK
Ismat Jabeen
تصویر: Privat

کھانا انسان کی بنیادی ضرورت تو ہے ہی مگر مختلف ممالک اور معاشروں میں اس کا مذہبی، اخلاقی یا سماجی بنیادوں پر بہت احترام بھی کیا جاتا ہے۔ کہیں مشکل سے کمائی گئی دو وقت کی روٹی کہہ کر اور کہیں خدا کے عطا کردہ رزق کا نام دے کر۔ دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایسے لاکھوں گھرانے ہیں، جہاں خوراک کے ضیاع سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں روزانہ بہت سا تیار کھانا اور بہت بڑی مقدار میں اشیائے خوراک ضائع کر دیے جاتے ہیں۔ ایسا صرف ترقی یافتہ ممالک ہی میں نہیں ہوتا بلکہ ان غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں بھی، جہاں آبادی کا کافی بڑا حصہ سطح غربت سے نیچے رہتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے اور عام شہریوں کی کافی بڑی تعداد کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔

 اگر ان ممالک میں روزانہ ضائع کر دی جانے والی خوراک کا اندازہ لگایا جائے، تو اس کے بعد نظر آنے والی صورت حال کے لیے شرمناک کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ 

خوراک ضائع کرنے والے ان ممالک کی فہرست میں دو سو بیس ملین کی آبادی والا پاکستان بھی شامل ہے، جہاں اندازوں کے مطابق ہر روز اوسطاﹰ کئی ملین ٹن کھانا ضائع ہو جاتا یا کر دیا جاتا ہے۔

 کوڑے کا حصہ بن جانے والے اس کھانے کے مجموعی حجم کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جیسے پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے کراچی اور لاہور جیسے کم از کم دو شہروں کا ہر شہری اپنے تین وقت کے کھانے میں سے دو وقت کا کھانا پورے کا پورا کوڑے میں پھینک دیتا ہو۔

پاکستان کی تقریباﹰ بائیس کروڑ کی آبادی میں کم از کم چار کروڑ شہری غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس مالی وسائل اتنے محدود ہوتے ہیں کہ وہ روزانہ کم از کم ایک وقت کے کھانے سے محروم رہتے ہیں۔ تو جہاں غربت، بھوک اور محرومی اتنی زیادہ ہوں، وہاں اتنا زیادہ کھانا ضائع کیسے اور کیوں ہو جاتا ہے؟ 

 اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال زرعی پیداواری شعبے اور اشیائے خوراک کی فروخت اور تیاری سے لے کر ریستورانوں اور گھروں میں تیار کیے جانے والے کھانوں تک ہر سال تقریباﹰ 1.3 بلین ٹن خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔

اس ضائع شدہ خوراک میں سے تقریباﹰ پانچواں حصہ وہ اشیائے خوراک یا تیار کھانا ہوتے ہیں، جو دکانوں، گھروں، ہوٹلوں اور ریستورانوں سے سیدھے کوڑے کے ڈھیروں میں پہنچ جاتے ہیں۔

خوردنی اشیاء کے ضیاع کا ایک سبب ان کی نامناسب سٹوریج بھی ہے۔ اس میں دکانوں، ہوٹلوں اور گھروں میں کچی اور پکی ہوئی اشیاء کا غلط طریقے سے ذخیرہ کیا جانا بھی شامل ہے۔

ایک بہت بڑا مسئلہ عام انسانوں کے غیر ذمے دارانہ رویے بھی ہیں۔ مثلاﹰ پاکستان جیسے ممالک میں شادیوں پر کھانا اتنا زیادہ تیار کیا جاتا ہے اور مہمان کھاتے ہوئے اتنا زیادہ کھانا پلیٹوں میں ڈال لیتے ہیں کہ جب وہ کھایا نہیں جاتا، تو پلیٹوں میں بچا ہوا اور میزبان کی طرف سے تیار کروایا گیا لیکن بچا ہوا زیادہ تر کھانا کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔

 سبھی انسانی معاشروں کو دیکھا جائے تو بحیثیت مجموعی زمین پر انسانی آبادی کے لیے یقینی طور پر کافی مقدار میں دستیاب خوراک کے بہت بڑے حصے کا یہ ایسا ضیاع ہے، جس کی وجہ عام انسانوں کی یہ غیر صحت مندانہ سوچ بنتی ہے: ''یہ نہ کیا، وہ نہ کیا، تو دنیا کیا کہے گی؟‘‘

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے دنیا بھر میں ہر سال ضائع کر دی جانے والے خوراک کا جو عالمی انڈکس بنایا ہے، اسے فوڈ لاس انڈکس یا ایف ایل آئی کہتے ہیں۔ اس انڈکس کو کم سے کم رکھنے کے لیے نئی ہزاری کے جو اہداف مقرر کیے گئے تھے، ان میں سے ایک ہدف بھوک کی شرح کو صفر تک لانے کا بھی تھا، جو اب تک حاصل نہیں کیا جا سکا۔

’زیرو ہنگر‘ کے تحت دنیا کے تمام انسانوں کو جو نو تجاویز دی گئی تھیں، وہ یہ ہیں:

  • گھر پر کھانا کھاتے ہوئے پلیٹ میں شروع میں تھوڑا کھانا ڈالیں اور ریستورانوں میں بڑی ڈشیں مل کر کھائیں۔
  •  بچے ہوئے کھانے کو اگلی بار کے کھانے کے لیے رکھ لیں یا اسے ملا کر کوئی نیا کھانا تیار کر لیں۔
  •  شاپنگ کرتے ہوئے صرف اتنی اشیائے خوراک خریدیں، جتنی آپ کو ضرورت ہے۔ ضرورت سے زیادہ خریداری کبھی نہ کریں۔
  •  پھل اور سبزیاں خریدتے ہوئے ان کے خوش نما ہونے پر زور نہ دیں۔ آنکھوں کے لیے غیر خوش نما پھلوں اور سبزیوں میں بھی خوش نما پھلوں اور سبزیوں جتنی ہی غذائیت ہوتی ہے۔ یعنی داغ والے پھل بھی خرید لیا کریں۔
  •  فریج میں اشیائے خوراک اور تیار کھانوں کو ایک سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ٹمپریچر پر سٹور کریں تاکہ وہ طویل عرصے تک تازہ اور قابل استعمال رہیں۔
  •  پرانا پہلے اور نیا بعد میں: دودھ، دہی، جام، پنیر، سبزیاں اور پھل وغیرہ، جو کچھ بھی نیا خریدیں، اسے کھانے سے پہلے فریج میں اسی قسم کی پہلے سے رکھی گئی اشیائے خوراک کو پہلے ختم کریں۔
  •  فوڈ انڈسٹری کی تیار کردہ مصنوعات کے قابل استعمال ہونے کی آخری تاریخ کے لحاظ سے use by  یا 'تک استعمال‘ اور best before  یا 'تک بہترین‘ کے الفاظ کے سامنے لکھی گئی تاریخوں کے فرق کو سمجھیں۔ ایسی مصنوعات عام طور پر ان پر لکھی گئی آخری تاریخ کے بعد بھی کئی دنوں تک بغیر کسی خطرے کے استعمال کی جا سکتی ہیں۔
  •  گھروں میں کچھ نہ کچھ خوراک ہمیشہ ضائع ہو ہی جاتی ہے۔ اسے اپنے باغیچے کے لیے نامیاتی کھاد بنانے کے لیے استعمال کریں۔
  •  آپ کے گھر میں، جو بھی کھانے تیار کیے جاتے ہیں، انہیں ''شئیرنگ از کئیرنگ‘‘ کے اخلاقی اصول کے تحت دوسروں کے ساتھ بانٹ کر کھائیں۔

آج کے بعد اگر آپ نے مثال کے طور پر زیادہ پکے ہوئے کیلے، کچھ کچھ نرم ہو چکے ٹماٹر یا ہلکے مرجھائے ہوئے چھلکوں والے سیب خریدنا اور کھانا شروع کر دیے اور اگر آپ کے گھر میں تازہ پکا ہوا کھانا دو تین مرتبہ تک کھایا جانے لگے، تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے دنیا سے بھوک کے خاتمے کے لیے اور خوراک کے ضیاع کے خلاف جنگ میں اپنا انفرادی حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔