1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناول خوابوں کی طرح ہوتے ہیں: اورہان پاموک

17 جنوری 2010

ستاون سالہ نوبل انعام یافتہ ترک ادیب اورہان پاموک نے جمعرات چودہ جنوری کو برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں ایک مقالہ پیش کیا، جس کا عنوان تھا:’’ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے، جب ہم کوئی ناول پڑھتے ہیں؟‘‘

https://p.dw.com/p/LXwm
تصویر: RIA Novosti

اورہان پاموک نے ادب کا نوبیل انعام سن دو ہزار چھ میں حاصل کیا تھا۔ برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں اپنے لیکچر میں پاموک نے روسی ادیب لیوٹالسٹائی کے ناول ’’آنا کارینینا‘‘ کو تمام زمانوں کا بہترین ناول قرار دیا۔ پاموک نے کہا کہ ناول پڑھتے وقت ہر ایک تفصیل کو اہمیت دی جانی چاہیے کیونکہ یہی تفصیلات کہانی کے مرکز تک پہنچنے کا وسیلہ بنتی ہیں۔

Buchcover Anna Karenina von Lew Tolstoi
پاموک نے روسی ادیب لیوٹالسٹائی کے ناول ’’آنا کارینینا‘‘ کو تمام زمانوں کا بہترین ناول قرار دیا

پاموک کا یہ لیکچر انگریزی زبان میں تھا۔ اِس شام کی میزبانی کے فرائض نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں جرمن زبان و ادب کے اُستاد پروفیسر آندریاز ہائسن نے انجام دئے۔ اپنے لیکچر میں پاموک نے کہا کہ ناول لکھنے والے ادیب دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ، جو لکھتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ اُن کی تحریر قاری پر کیا اثرات مرتب کرے گی۔ دوسری قسم اُن ادیبوں کی ہے، جو ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر لکھتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ خود اُن کی تحریروں میں اِن دونوں قسم کے ادیب یکجا ہو گئے ہیں۔

پاموک نے کہا:’’ناول خوابوں کی طرح ہوتے ہیں۔‘‘ اِس ترک ادیب کے خیالات جاننے کے لئے وہاں یونیورسٹی طلبہ کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور اورہان پاموک اپنے ڈیجیٹل کیمرے کی مدد سے مسلسل اِن نوجوان حاضرین کی تصاویر بناتے رہے۔ پاموک کا کہنا تھا کہ ناول پڑھتے وقت قاری ایک طرف یہ سوچتا ہے کہ جو کچھ وہ پڑھ رہا ہے، وہ واقعی کہیں پیش آ چکا ہے، دوسری طرف اُسے اپنے دِل کی گہرائیوں میں کہیں یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ ایسا نہیں بھی ہے۔ ایک قاری مسلسل اِس اُدھیڑ بُن میں رہتا ہے کہ کہانی کے کون سے حصے حقیقی واقعات کی عکاسی کرتے ہیں اور کون سے محض فرضی اور تخیلاتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ خود اُن سے بھی یہ سوال کئی مرتبہ کیا جا چکا ہے۔

Friedenspreis des Deutschen Buchhandels geht an Orhan Pamuk
’’ناول خوابوں کی طرح ہوتے ہیں‘‘تصویر: dpa

پاموک کے خیال میں قاری کسی ناول کے کرداروں اور اُن کے خیالات کے ہمہ وقت ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ’’جب ہم کوئی ناول پڑھتے ہیں، تو ہمارا ذہن سخت محنت کرتا ہے۔‘‘ تاہم پاموک کے مطابق بہت کم قارئین کو اِس بات کا اداراک ہو پاتا ہے۔ زیادہ تر قارئین کار ڈارئیوروں کی طرح ہوتے ہیں، جو ہر سیکنڈ کا حساب نہیں رکھتے کہ وہ ڈرائیو کرتے وقت کیا کچھ کرتے ہیں۔ کئی قارئین جیمز جوائس کی طرح کے کسی مشکل نثر لکھنے والے ادیب کی کتاب پڑھ کر کسی قدر فخر بھی محسوس کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اتنی مشکل عبارت کو پڑھنے کا کارنامہ سرانجام د یا ہے۔

Orhan Pamuk - Nobelpreisträger Literatur 2006 mit seiner Tochter
دوہزار چھ میں نوبیل انعام پانے والے پاموک اپنی بیٹی کے ہمراہتصویر: AP

پاموک کے اِس لیکچر پر تبصرہ کرتے ہوئے جرمن اخبار ’’نوئے اوسنا برُکر‘‘ لکھتا ہے:’’خوشی کی تلاش، زندگی کے مختلف خاکے، ناکامی سے دوچار ہونے والی اُمیدیں: ’’آنا کارنینا‘‘ کے حق میں پاموک کا ووٹ کسی حد تک قابلِ فہم ہے۔ ٹالسٹائی کا یہ ناول زندگی کو اُس کی مکمل کلیت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہ بات لیکن دیگر بہت سے ناولوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ دَورِ حاضر میں ناول کو اُس کی اُسی خصوصیت کے لئے سراہا جاتا ہے، جس کے لئے پہلے اُسے رَد کیا جاتا تھا یعنی اِن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ قاری کو اغوا کر کے ایک خوابیدہ سفر پر لے جاتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ناول کا مطالعہ قاری کے لئے در اصل حقائق سے فرار کے مترادف ہے تاہم پاموک کہتے ہیں کہ جو شخص فرضی اور تخیلاتی کرداروں اور واقعات کو پوری طرح سے سمجھ لیتا ہے، اُسے خود اپنی زندگی کے واقعات اور اپنے آس پاس کے کرداروں کے بارے میں بھی پھر اُتنی ہی زیادہ آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ناول پڑھنے کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ اِن کے مطالعے سے انسان کو اپنی اصلی اور حقیقی زندگی کے مسائل اور واقعات زیادہ واضح نظر آنے لگتے ہیں۔‘‘

رپورٹ : امجد علی

ادارت : عاطف توقیر