1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی تشدد کی شکار پاکستانی خواتین انصاف کی تلاش میں

24 مارچ 2011

سیلاب سے تباہ حال ایک گاؤں کی ریحانہ یاسمین کا خیال تھا کہ بڑی شفیق نظر آنے والی خواتین شاید اس کی مدد کے لیے آئی تھیں، مگر انہوں نے یاسمین کو دو مردوں کے حوالے کر دیا جنہوں نے اسلحہ دکھا کر اس کی عصمت دری کی۔

https://p.dw.com/p/10gi7
تصویر: AP

گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ وسطی پنجاب کے ایک قصبے راجن پور سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ ریحانہ یاسمین کے بقول تین خواتین اسے اس کے گھر سے یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گئیں کہ سیلاب زدگان کے لیے امداد تقسیم کی جا رہی ہے اور وہ اسے خوراک دلائیں گی: ’’لیکن وہ مجھے ایک اور گھر میں لے گئیں جو میرے گھر سے دور تھا اور مجھے ان میں سے ایک خاتون کے دو بیٹوں کے حوالے کر دیا گیا۔‘‘

نقاب کے پیچھے چھپی آنسوؤں سے بھری سرخ آنکھوں کے ساتھ یاسمین نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے رپورٹر کو بتایا کہ اُن دو مردوں نے اسلحہ دکھا کر اس سے نکاح کے کاغذات پر زبردستی دستخط کرائے اور پھر دو مرتبہ اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ یاسمین کے بقول ان دونو‌ں مردوں کا کہنا تھا کہ یہ اُس کے والد کی سیلاب زدگان کے لیے قائم کی گئی امدادی کمیٹی میں شمولیت کا بدلہ تھا: ’’ان کی میرے والد کے ساتھ مخاصمت تھی، جنہیں ہمارے گاؤں کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بنائی گئی ریلیف کمیٹی کا رکن بنایا گیا تھا۔ وہ انہیں سبق سکھانا چاہتے تھے‘‘۔ یاسمین کے بقول، ’انہوں نے مجھ سے کہا، جب تمھارا باپ اپنی بیٹی کی حفاظت نہیں کر سکتا تو وہ گاؤں کے لوگوں کی مدد کیسے کرے گا‘۔

Mukhtar Mai
نو برس قبل خود مختاراں مائی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھاتصویر: AP

سال 2010ء میں پاکستانی تاریخ کے بدترین سیلاب کے نتیجے میں دوہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے اور ایک کروڑ سے زائد افراد متاثر۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ برس پاکستان میں قریب ایک ہزار خواتین کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا، دوہزار کو اغواء کیا گیا جبکہ ڈیڑھ ہزار کے قریب خواتین کو قتل کر دیا گیا۔

عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ان اعداد و شمار کے علاوہ 500 دیگر خواتین کاروکاری یعنی عزت کے نام پر قتل کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ عورت فاؤنڈیشن کی قائم کردہ ایک رہائش گاہ میں پناہ لینے والی گلشن بی بی اپنے والد کے مخالفین کی طرف سے ناجائز تعلقات کے الزام کے بعد ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہوتے بچیں۔ گلشن کے بقول: ’’جب کاروکاری کی بات ہو جاتی ہے تو پھر اس بات کی اہمیت نہیں رہتی کہ اس میں کتنی سچائی ہے بلکہ الزامات اہم ہوجاتے ہیں۔‘‘

پاکستانی صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی گلشن بی بی کے خلاف اس کے باپ کے مخالفین کے الزامات کے بعد اس کے باپ نے گلشن کو گاؤں کی پنچایت کے حوالے کرنے کی بجائے اسے دوسری جگہ منتقل کر دیا تاکہ اس کی جان بچائی جا سکے۔ مگر بد قسمتی سے وہ گاؤں کے سردار کے ہاتھ آ گئی، جس نے ایک سال تک اسے اپنے ہاں قید رکھا اور جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ بالآخر پولیس نے اسے اس سردار کی قید سے رہائی دلائی۔

عورت فاؤنڈیشن کی طرف سے حال ہی جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران پاکستان میں 600 خواتین نے خودکشی کی، جبکہ 500 کے قریب خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے 70 خواتین پر تیزاب پھینکا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق آٹھ ہزار خواتین کو مختلف جرائم کا نشانہ بنایا گیا، تاہم عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

Protest zum Weltfrauentag in Pakistan
پاکستان میں اصل مسئلہ قانون کے استعمال کے حوالے سے ہے۔ لوگ قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں: عورت فاؤنڈیشنتصویر: picture-alliance / dpa

عورت فاؤنڈیشن کی ملکی سطح پر کوآرڈینیٹر ربیعہ ہادی کے مطابق: ’’پاکستان میں اصل مسئلہ قانون کے استعمال کے حوالے سے ہے۔ لوگ قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔‘‘

گلشن بی بی نے جس مرکز میں پناہ حاصل کی ہے وہ مختاراں مائی کی طرف سے قائم کیا گیا ہے اور یہ اسی مقام کے قریب سبز کھیتوں کے عین درمیان میں واقع ہے، جہاں نو برس قبل خود مختاراں مائی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ اب جبر و تشدد کی شکار خواتین کی داد رسی کے لیے کام کر رہی ہیں۔

ربیعہ ہادی کے مطابق یاسمین اور گلشن بی بی کی طرح کے درجنوں دیگر واقعات اور معاملات بھی ہیں: ’’ہم اس وقت تک اس طرح کے ظلم وزیادتی سے نہیں نمٹ سکتے، جب تک عدل وانصاف کا ایک شفاف نظام قائم نہیں ہوتا۔‘‘

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں