1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مزمل حسن کو 25 سال قید کی سزا

10 مارچ 2011

امریکہ میں مسلمانوں کی ساکھ کو بہتر کرنے کے لیے کھولے جانے والے ایک ٹیلی وژن اسٹیشن کے مالک کو بیوی کا سر قلم کرنےکے الزام میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔ عدالت نے انہیں 25سال قید کی سزا سنائی ہے۔

https://p.dw.com/p/10WoE
مزمل حسن نے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود کو پولیس کے حوالے کیا تھاتصویر: AP

بات 2004ء کی ہے کہ جب پاکستانی نژاد امریکی مزمل حسن نے اپنی بیوی آسیہ کے ساتھ مغرب اور مسلم دنیا کو قریب لانے اور ان کے مابین پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ارادہ کیا۔ اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے انہوں نے ایک ٹیلی وژن چینل شروع کیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب 11ستمبر2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد امریکہ میں صورتحال بہت زیادہ مسلمانوں کے حق میں نہیں تھی۔

مزمل اور آسیہ کو امید تھی کہ امریکہ میں آباد آٹھ ملین مسلمانوں کی ثقافت اور رہن سہن کو مثبت انداز میں پیش کرتے ہوئے بہت سے امریکیوں کے ذہنوں میں جو دقیانوسی سوچ پائی جاتی ہے، اسے ختم کیا جائے۔ اس باحوصلہ جوڑے کی کچھ کر دکھانے کی امید اس وقت دم توڑ گئی، جب ان کی ازدواجی زندگی میں مسائل نے جنم لینا شروع کیا۔ مسلمانوں کی ساکھ بہتر کرنے اور مذاہب کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لیے قائم کیے گئے ’برجز‘ یعنی پُل ٹی وی چینل کے مالکان کی اپنی زندگی میں فاصلے بڑھ رہے تھے اور ہم آہنگی ختم ہوتی جا رہی تھی۔

Symbolbild Religion Islam Christentum
مزمل اور آسیہ مذاہب میں ہم آہنگی کے خواہاں تھےتصویر: AP Graphic / DW-Fotomontage

اس دوران فروری 2009ء آ گیا، آسیہ کی برداشت شاید ختم ہو چکی تھی۔ اس نے مزمل کو آخر کار کہہ ہی دیا کہ اب ان کا ایک دوسرے کا ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا اور اس مسئلے کا حل صرف طلاق ہی ہے۔ آسیہ کے اِس مطالبے کے پانچ روز بعد ہی مزمل نے اسے ’برجز‘ ٹی وی کے ایک اسٹوڈیو میں قتل کر کے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ مزمل نے قتل کرنے کے بعد خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔

46 سالہ مزمل حسن نے اپنی بیوی کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے جبرکا شکار ہیں اور انہیں جان کا خطرہ تھا۔ آسیہ نے بھی طلاق حاصل کرنے کے لیے، جو کاغذات جمع کرائے تھے، ان میں بھی یہی موقف اختیار کیا گیا تھا۔

بدھ کے روز جج کا کہنا تھا کہ اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ مزمل کا اقدام ایک سوچی سمجھی کارروائی تھی۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران مزمل نے تین وکیلوں کی خدمات حاصل کیں۔ لیکن وہ ان کی جرح سے مطمئن نہیں ہوئے اور آخر کار انہوں نے اپنا مقدمہ خود لڑنے کا فیصلہ کیا۔ قانونی ماہرین کی رائے خود اپنا مقدمہ لڑنا مناسب فیصلہ نہیں ہوتا۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: امتیاز احمد